Wednesday 10 October 2012


غمِ تنہائی سے ہر بار بچا لیتے ہیں
مجھ کو بام و در و دیوار بچا لیتے ہیں

طیش آجائے جو دشنام کے پتھر کھا کر
ہونٹ سی لیتے ہیں ، کردار بچا لیتے ہیں

ہم نہتے کبھی سورج سے نہیں لڑ سکتے
یہی بہتر ہے کہ اشجار بچا لیتے ہیں

میری حکمت ، مِری تعلیم کبھی میرا ضمیر
میرے دشمن کو طرفدار بچا لیتے ہیں

ایک تم ہو کہ جو محلوں میں بھی مر جاتے ہو
ایک ہم ہیں کہ جنہیں دار بچا لیتے ہیں

دشمنی سارے زمانے سے نہیں ہے اچھی
کندھا دینے کے لئے چار بچا لیتے ہیں

ہم وہ شاعر ہیں جنہیں عمرِ خضر ملتی ہے
ہم کہاں مرتے ہیں ، اشعار بچا لیتے ہیں

سر بچایا تو جھکانا بھی پڑے گا ساگر
ایسا کرتے ہیں کہ دستار بچا لیتے ہیں